…… تحریر : سعود احمد افضل …… لندن اولمپکس میں آسٹریلیا کے ہاتھوں پاکستان کی عبرتناک شکست کے بعد پاکستانی ہاکی ٹیم نہ صرف میڈل کی دوڑ سے باہر ہو گئی بلکہ کسی بھی کھیل میں میڈل حاصل کرنے کی امیدیں بھی دم توڑ گئیں۔ اب ہاکی میں ساتویں یا آٹھویں پوزیشن ہی مقدر ہے۔ آسٹریلیا سے میچ جیتنے کی صورت میں سیمی فائنل کا ٹکٹ کنفرم ہو جاتا لیکن اس اہم ترین میچ میں ٹیم کی کارکردگی ایسی تھی جیسے انہیں سیمی فائنل کھیلنے سے کوئی دلچسپی نہ ہو۔ درحقیقت آسٹریلیا نے ہاکی کے میچ میں پاکستانی ٹیم کو ٹینس کا مزا چکھادیا۔ سات گو ل سے شکست اس سے پہلے کبھی نہ کھائی تھی۔ہاکی کے علاوہ دیگر کھیلوں میں بھی کھلاڑی ابتدائی راؤنڈ میں ہی شکست کھا کر مقابلوں سے باہر ہوتے رہے۔لندن اولمپکس ہم پاکستانیوں کے لئے انتہائی مایوس کن ثابت ہوئے۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے جو بویا جاتا ہے، وہی کاٹا جاتا ہے۔پاکستان میں کھیلوں اور کھلاڑیوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اس کے بعد یہی دن دیکھنے کو ملتا ہے۔ کھیلوں کی مینجمنٹ میں ایک سے بڑھ کے ایک نالائق بیٹھا ہے جس کی قابلیت محض سیاسی وابستگی یا کسی طاقتور شخص سے قرابت داری ہوتی ہے۔ اسپورٹس کے فنڈز کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔ نااہل انتظامیہ کو متعلقہ کھیل کی ابجد کا بھی پتہ نہیں ہوتا۔ قومی اور صوبائی سطح کے کھیلوں میں بد انتظامی اور افراتفری عروج پر ہوتی ہے۔ کھلاڑیوں کا انتخاب میرٹ کے بجائے سفارش اور پیسے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ کھیلوں کے ذمہ داران ملک میں کھیلوں کے فروغ کے بجائے اس کی بربادی کا ساماں زیادہ کرتے ہیں۔ ملک میں مختلف کھیلوں میں جو بھی ٹیلنٹ سامنے آتا ہے وہ زیادہ تر خداداد ہوتا ہے، ذمہ داران کا اس میں کوئی کمال نہیں ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ کسی کھیل میں ابتدائی ٹیلنٹ سامنے آنے کے بعد اس کھلاڑی کو اعلیٰ تربیت دلائی جائے، بیرون ملک تربیت کے لئے بھیجا جائے اور اس کی گرومنگ کی ہر ممکن کوشش کی جائے تاکہ وہ کھلاڑی بین الاقوامی معیار سے روشناس ہو، اور کسی بھی انٹر نیشنل ٹورنامنٹ میں بہترین کارکردگی دکھانے کے قابل ہو، لیکن ہوتا اس کے با لکل بر عکس ہے۔ ٹیلنٹ کی ہر ممکن حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اہل کھلاڑیوں کے بجائے سفارشی کھلاڑی ملک کی نمائندگی کرتے ہیں جن کی ناقص کارکردگی قوم کی بدنامی کا سبب بنتی ہے۔ دنیا کی دیگر اقوام کھیلوں میں اپنا معیار بلند سے بلند تر کر رہی ہیں۔ ان کے اور ہمارے کھلاڑیوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ان کی عمومی جسمانی صحت، کھیل میں پختگی ، پیشہ ورانہ ذمہ داری کا مظاہرہ اور ان کے پیچھے مضبوط مینجمنٹ کا وجود ہمارے لئے سیکھنے کا سبق ہے۔ بحیثیت قوم ہم آج کھیلوں سمیت اپنا کوئی بھی شعبہ صحیح سے چلانے کے قابل نہیں رہے۔ ہم میں اور دیگر اقوام کے درمیان فرق گہرے سے گہرا ہوتا جارہا ہے۔ لندن اولمپکس کے نتائج میں کیا ہمارے لئے کوئی سبق ہے یا حسب دستور ہم ساری ذمہ داری بدقسمتی پر ڈال کر ریت میں سر دبا کر کسی اگلے مقابلوں میں شکست کی تیاریوں میں مصروف ہو جائیں گے۔۔۔۔؟ |
Thursday, 16 August 2012
- Blogger Comments
- Facebook Comments
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 comments:
Post a Comment